*آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم* ترتیب : *رانا محمد شفیق خاں پسروری* *سولہویں تراویح* *سورۃ المومن……40 ویں سورت* سورۂ ...
*آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم*
ترتیب : *رانا محمد شفیق خاں پسروری*
*سولہویں تراویح*
*سورۃ المومن……40 ویں سورت*
سورۂ مومن مکی ہے، 85 آیات اور9 رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے نمبر 60 ہے، چوبیسویں پارہ کے چھٹے رکوع سے چودہویں رکوع تک ہے۔یہ سورت زمر کے متصل بعد ہی نازل ہوئی تھی۔ (سورۂ مومن سے (حم واخواتھا) یعنی وہ سورتیں جن کے شروع میں حروف مقطعات ”حٓم“ آتا ہے۔ شروع ہوتی ہیں۔اگلی سورتیں بھی وہی ہیں جن کے آغاز میں ”حٓم“ آتا ہے۔مثلا سورۂ سجدۂ، سورۂ شوریٰ، سورہئ زخرف، سورہئ دخان، سورہئ احقاف وغیرہ۔ یہ سورت جب نازل ہوئی تو اس وقت اسلام کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں شروع ہو چکی تھیں، ایسے میں آل فرعون کے مومن کا ذکر فرما کر، مسلمانوں کو حوصلہ دیا گیا ہے اور اسی مومن کے حوالے سے (آیت 28 کے مطابق) سورت کا نام بھی ”مومن“ قرار پایا۔سورت میں کفار کو پے در پے تنبیہات ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کو بھی فرعون، ہامان اور قارون نے جھٹلایا تھا اور ان کو جادوگر کہا تھا۔ فرعون نے ایمان والوں کے بچوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا،اور وہ موسیٰ ؑ کو بھی دین کی تبلیغ کی وجہ سے قتل کرنا چاہتا تھا۔البتہ اس کے لوگوں میں سے ایک شخص مسلمان ہوگیا تھا، جس نے فرعون سے صاف کہا تھا کہ تو ایسے شخص کو کیوں قتل کرتا ہے جو اللہ کو مانتا ہے اور مجھے تو خوف ہے کہ اس قوم پر بھی اسی طرح کا عذاب آنے والا ہے جیسا کہ نوحؑ کی قوم پر یاعادوثمود پر آیا تھا۔یوسفؑ بھی اللہ کی روشن نشانیاں لائے تھے۔ فرعون نے فریب کاری کے لئے اپنے وزیر ہامان سے کہا تھا کہ میرا محل بہت اونچا بنا دو تاکہ موسیٰ ؑکے خدا کو جھانک کر دیکھوں۔آخر فرعون کا فریب مٹنے والا ہی تھا۔
*سورۃحم سجدہ۔ 41ویں سورت*
سورۂ حم سجدہ مکی ہے،54،آیات اور 6رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے 61ویں سورت ہے۔ حم سجدہ کے علاوہ اس کے نام ”سورہئ فصلت“، سورہئ مصابیح“ بھی ہیں۔ چوبیسویں پارہ کے پندرہویں رکوع سے شروع ہو کر پچیسویں پارہ کے پہلے رکوع تک ہے۔ اس سورت کا نام دو لفظوں سے مرکب ہے، ایک حٓم اور دوسرا السجدہ۔ حٓم شروع میں ہے۔ اور سجدہ،آیت نمبر 37میں درج حکم سجدہ کی وجہ سے ہے۔ یہ سورت حضرت حمزہ ؓ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمرؓ کے ایمان لانے سے پہلے نازل ہوئی۔
ارشاد ہے آپ ؐفرما دیں کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑک سے جیسی کہ عاد و ثمود کی قوموں پر آئی تھی کہ وہ لوگ اپنے رسولوں کو نہیں مانتے تھے اور اللہ کے منکر تھے، لیکن جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور جو اللہ سے ڈرتے تھے، انہیں اس عذاب سے بچا لیا۔ اور حشر کے دن سب کفار (جو اللہ کے دشمن ہیں) جمع کئے جائیں گے اور ان کے کانوں، آنکھوں اور کھالوں سے ان کے کئے کی گواہی مہیا کی جائے گی۔ اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ ایک بے قدر زمین،بارش سے تر و تازہ ہو جاتی ہے،اسی طرح انسان بھی مرنے کے بعد زندہ کر دیا جائے گا اور اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
*سورۃ الشوریٰ..... 42ویں سورت*
سورۂ شوریٰ مکی ہے۔ 53،آیات اور 5رکوع ہیں، نزول کے اعتبار سے 62ویں سورت ہے۔ 25ویں پارہ کے دوسرے رکوع سے چھٹے رکوع تک ہے۔ سورت کا نام آیت 38 کے فقرہ ”وامرھم شوریٰ بینھم“ سے لیا گیا ہے۔ اس سورہ کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ حٓم سجدہ کے متصل بعد نازل ہوئی۔ اس میں وہی بیان جاری ہے جو سورۂ سجدہ میں ہے۔ اس میں نبوت کی صداقت اور باہمی مشاورت پر زور دیا گیا ہے۔ نیز توحید پر بھی بحث ہے۔
اللہ کو پہچاننے کے لئے دریا میں بڑی بڑی کشتیاں ہیں کہ اللہ نہ چاہے تو وہ نہیں چل سکتیں۔ وہ انہیں غرق بھی کر سکتا ہے اور ہماری آیتوں سے جھگڑنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دینوی مال و اسباب‘ دنیا کی زندگی کے لئے ہے اور آخرت میں کام دینے والی وہ نیکیاں ہیں جوایمان والوں اور اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو حاصل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں،جب غصہ آ جائے تو معاف کر دیتے ہیں، وہ اللہ کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، آپس میں مشورہ کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں اور ان پر جب کوئی ظلم کرے تو انصاف سے کام لیتے ہیں۔
*سورۃ الزخرف.....43ویں سورت*
سورۂ زخرف، مکی ہے، 89، آیات اور 7رکوع ہیں۔ نزول کے مطابق نمبر63ہے۔ پچیسویں پارہ کے ساتویں رکوع سے تیرہویں رکوع تک ہے۔ سورہ کا نام آیت 35کے لفظ ”زخرف“ سے لیا گیا ہے۔ یہ شوریٰ کے متصل بعد نازل ہوئی، یعنی اس دور میں جب کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے مشورے کر رہے تھے۔ اس سورہ میں کفار کے جاہلانہ عقائد پر تنقید کی گئی ہے اور ان کی نامعقولیت کا پردہ فاش کیا گیا ہے اور توحید کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
کافروں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا،حالانکہ بیٹی اگر ان کے یہاں پیدا ہوتی ہے تو انہیں ناگوار ہوتا ہے اور کیا وہ لوگ فرشتوں کی پیدائش کے وقت موجود تھے کہ وہ انہیں بیٹیاں سمجھتے ہیں؟ابراہیم ؑ نے بھی اپنے باپ اور اپنی قوم کو راہ حق دکھلانے کی کوشش کی تھی تو اللہ نے ان کی نسل میں بھی توحید کے داعیوں کو قائم رکھا، لیکن کافروں نے سہولت اور مہلت کے باوجود حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا اور ان کو جادوگر سمجھا۔ بلکہ یہ کہا کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے امیروں پر نازل ہونا تھا۔ اللہ جسے چاہے دنیا کی جتنی دولت دے لیکن نبوت اور اللہ کی رحمت بہت بڑی چیز ہے اور اس مال سے افضل ہے جو کفار جمع کرتے ہیں۔ موسیٰ ؑ نے بھی فرعون اور اس کے سرداروں کو سارے جہانوں کے مالک کا پیام پہنچایا تو وہ لوگ ہنسنے لگے۔ پھر جب ان لوگوں پر عذاب آیا تو موسیٰ ؑسے دعا کے لئے گزارش کی، لیکن جب وہ مصیبت ٹل گئی تو وہ لوگ پھر منکر ہو گئے اور کفار تو عیسیٰ ؑ کی مثال سن کر ہنستے ہیں۔ اللہ نے عیسیٰ ؑکو نبوت دی اور ان کی تخلیق سے بنی اسرائیل کو تعجب میں ڈال دیا اور وہ قیامت کے قریب اتریں گے اور وہ جب نبی بن کر اپنی قوم کے پاس تشریف لائے تو حکمت بیان کی اور توریت میں ان لوگوں نے اختلافات پیدا کر دیئے تو ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے، لیکن اللہ کے ماننے والوں کے لئے کوئی خوف و غم نہیں ہو گا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جنت میں داخل ہوں گے۔ ٭
کوئی تبصرے نہیں