حالیہ گزرنے والے ضمنی الیکشن کے رزلٹ آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے لیے پریشانی بڑھ گئی ہے پنجاب کے ایسے حلقے جہاں پر پہلے مسلم لیگ کے امیدو...
حالیہ گزرنے والے ضمنی الیکشن کے رزلٹ آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے لیے پریشانی بڑھ گئی ہے پنجاب کے ایسے حلقے جہاں پر پہلے مسلم لیگ کے امیدوار کو ہرانا ناممکن سمجھا جاتا تھا لیکن p t i کے چیئرمین عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے اب ان حلقوں کے لوگ بھی ابھی اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرتے نظر آ رہے ہیں موجودہ صورتحال میں آئندہ الیکشن میں بھی مسلم لیگ کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لئے اب مسلم لیگ کے امیدواروں کو نظریاتی اور متحرک مسلم لیگ کے ورکرز کو اکٹھا کرنا ہوگا اسی طرح اگر بات کریں این اے 68 پسرور کی تو یہاں پر بھی بھی مسلم لیگ ن کے علاوہ کسی دوسری جماعت کے امیدوار کا جیتنا ناممکن تھا لیکن پارٹی کے مقامی قائدین کے اختلافات کی وجہ سے مسلم لیگ کے مضبوط اور مقامی لیڈر مسلم لیگ کو چھوڑ کر p t i میں شامل ہوتے گئے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن این اے 68 میں پہلے کی نسبت بہت کمزور ہوتی چلی گئی جن میں خاص طور پر منور علی گل اور رانا اعجاز احمد آف مالی پور قابل ذکر ہیں اگر آج بھی بھی یہ دونوں مقامی سیاستدان مسلم لیگ میں شامل ہوتے تو این اے 88 میں مسلم لیگ کے امیدوار کو ہرانا آج بھی ناممکن ہے لیکن ان دونوں مقامی لیڈروں کے ناراض ہو کر p t i میں شامل ہونے سے پی ٹی آئی تحصیل پسرور میں بہت مضبوط ہوئی ہے لیکن مسلم لیگ کی لیڈرشپ نے اس بات کو نظرانداز کر دیا اب ایک دفعہ پھر مسلم لیگ کے مقامی قائدین اور امیدواروں کے درمیان اختلافات دیکھنے میں آ رہے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ کے نظریاتی کارکن بہت پریشان ہے اور پارٹی کو ایک دفعہ پھر شدید نقصان پہنچ رہا ہے مسلم لیگ کے مقامی قائدین میں اختلافات کی وجہ سے یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ مسلم لیگ کے m n a ایک دفعہ پھر ایک نئے ایم پی اے کے ساتھ الیکشن میں جانا چاہ رہے ہیں لیکن پسرور کی عوام میں اس وجہ سے بڑی بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ مسلم لیگ کا ایم پی اے مقامی پسرور کا ہونے کی وجہ سے پسرور اور اس کے گردونواح میں بہت مقبول اور لوگوں کے بڑے فیورٹ سمجھے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ پسرور کے لوگوں کی یہ ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ ایم پی اے ہمیشہ پسرور سٹی سے ہی ہونا چاہیے اس لیے مسلم لیگ کی لیڈرشپ کو اب سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا چاہیے کیوں کہ اگر جلد ہی مسلم لیگ کی مقامی قیادت کے اختلافات ختم نہیں ہوتے اور ایک دفعہ پھر اگر نئے ایم پی اے کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں تو مسلم لیگ کے لیے یہ الیکشن آسان نہیں ہوگا پارٹی پہلے ہی بہت کمزور اور نظریاتی ورکر خاموش ہو چکے ہیں۔ تحریر۔ عمران نواز کھوکھر چیر مین سینٹرل پریس کلب پسرور
کوئی تبصرے نہیں