کینیا کے جس علاقے میں پاکستانی صحافی ارشد شریف اتوار کو مارے گئے وہاں بدھ کے دن ملک میں جرائم کی تفتیش کرنے والے وفاقی ادارے کے حکام کی ٹیم...
کینیا کے جس علاقے میں پاکستانی صحافی ارشد شریف اتوار کو مارے گئے وہاں بدھ کے دن ملک میں جرائم کی تفتیش کرنے والے وفاقی ادارے کے حکام کی ٹیم موجود تھی۔
یہ ملک کا انتہائی دور دراز علاقہ ہے جو کینیا کے درالحکومت نیروبی سے تقریبا 100 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
یہ بظاہر ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کو ارشد شریف جیسے صحافی کی موجودگی کی توقع ہو۔
یہ بہت ہی کم آبادی والا علاقہ ہے جہاں دور دور تک تا حد نگاہ صحرا پھیلا ہوا ہے۔ یہاں آپ کو کہیں کہیں کچھ جھاڑیاں نظر آئیں گی۔
یہاں ایک مقامی ’مسائی‘ قبیلے کے لوگ بستے ہیں جو اپنے مویشیوں کے لیے پانی اور چراگاہوں کی تلاش میں نظر آئیں گے۔
واضح رہے کہ ارشد شریف اتوار کی شب فائرنگ کے ایک واقعے میں مارے گئے تھے جس کے بعد مقامی پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔
ارشد شریف جس علاقے میں مارے گئے کیا وہ محفوظ علاقہ تصور ہوتا ہے؟
جس علاقے میں ارشد شریف کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا اسے نیروبی میں ناصرف دن بلکہ رات کے اوقات میں بھی سفر کے لیے قدرے محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ جس رات یہ واقعہ پیش آیا تھا اس رات وہ ایک کار چور کا تعاقب کر رہے تھے اور اسی لیے سٹرک پر رکاوٹ لگائی گئی تھی اور ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ بدقسمتی سے اسی پولیس رکاوٹ پر پہنچی جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب سپیشل سروس یونٹ کے چار پولیس والوں کے خلاف ماورائے قانون قتل اور جبری گمشدگیوں کے الزامات کے تحت مقدمہ جاری ہے۔
یہ آفیسر سپیشل فورسز یونٹ کے ہیں۔ کینیا کے نئے صدر نے اپنی افتتحاحی تقریر میں اس یونٹ پر پابندی کا اعلان کیا تھا کیونکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ بن گیا جس کی جانب یہاں کینیا میں اور باہر بھی میڈیا اور لوگوں کی بہت زیادہ توجہ مبذول ہوئی ہے۔
کینیا پولیس کی جانب سے اس واقعے کی جو ابتدائی رپورٹ مگدائی پولیس سٹیشن میں جمع کروائی گئی ہے اس میں کہا گیا کہ ’پولیس کو ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ فائرنگ کے ایک واقعے میں کینیا پولیس کے سپیشل سروس یونٹ ’جی ایس یو‘ کے افسران ملوث تھے اور اس کے نتیجے میں لگ بھگ 50 سالہ پاکستانی شہری ارشد شریف فائرنگ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔‘
کینیا کی پولیس کا سرکاری بیان یہ ہے کہ جس کار میں ارشد شریف سفر کر رہے تھے اس پر پولیس کی جانب سے اس لیے فائرنگ کی گئی کیونکہ پولیس ایک نامعلوم کار کی تلاش میں تھی اور اس کار کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ اغوا کے معاملے میں ملوث تھی۔
پولیس کے مطابق جب پولیس کے اشارے کے باوجود گاڑی نہیں روکی گئی تو پولیس نے شبے میں اس کار پر فائرنگ شروع کر دی تاہم اب یہ معاملہ نہ صرف کینیا میں بلکہ ملک سے باہر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے جس میں بہت زیادہ دلچسپی لی جا رہی ہے۔
اس وقت کینیا کی کریمینل انویسٹیگیشن کے ڈائریکٹر آپریشنز کے تحت کام کرنے والی پولیس بھی اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرنا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے FIA اور انٹیلیجنس ایجنسیز کے اعلیٰ افسران پر مشتمل دو رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق ’فوری طور پر کینیا روانہ ہو گی اور ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کے بعد حتمی رپورٹ وزارتِ داخلہ کو پیش کرے گی۔‘
دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے صحافی ارشد شریف کے قتل پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شفاف اور فیصلہ کن انداز میں اس واقعہ کے حقائق کا تعین ہو سکے۔
شکریہ بی بی سی
کوئی تبصرے نہیں