چنی پہ چھڑی بحث پڑھ کر جی چاہا کہ کیوں نا بات کو آگے بڑھایا جائے۔ چنی سے جڑے رویوں پہ بات کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ دوپٹہ لیا جائے یا نہی...
چنی پہ چھڑی بحث پڑھ کر جی چاہا کہ کیوں نا بات کو آگے بڑھایا جائے۔
چنی سے جڑے رویوں پہ بات کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ دوپٹہ لیا جائے یا نہیں بلکہ بچپن میں چھاتی کے متعلق کی گئی بے جا روک ٹوک کی نشان دہی تھی، جس سے عورت شرمندہ ہو کر چھاتی کو جسم کا ایک ایسا حصہ مان لیتی ہے کہ اس کے متعلق بات کرتے ہوئے زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔
بیماری، ٹیسٹ اور علاج۔ چھاتی کے لیے؟ نہ بابا نہ، نام نہ لو۔ لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں تو دروازے سے ہی واپس۔ مرد ڈاکٹر کرے گا چھاتی کا معائنہ۔ توبہ توبہ!
چھاتی میں ہونے والی کسی بھی تکلیف کو سرگوشیوں اور دیسی ٹوٹکوں سے حل کرنے کی کوشش اسی شرم کا نتیجہ ہے جو بچپن ہی سے لڑکی پر لاد دی جاتی ہے۔ ایک نارمل عضو کو معاشرتی رویے ایک ایسی بدصورتی میں بدل دیتے ہیں جن سے بلوغت کی سرحد پہ کھڑی بچی اپنے آپ سے شرمندہ رہتی ہے۔
بہتر ہو گا کہ عرب کلچر پہ بھی بات کر لی جائے جہاں چنی یا دوپٹے کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ عبایہ پہننے کا رواج بیسویں صدی کی دین ہے، قرون اولی کی بات نہیں۔ روزمرہ کے لباس میں خواتین لمبی میکسی، پینٹ شرٹ، سکرٹ شرٹ کے ساتھ سر پہ رومال اوڑھتی ہیں۔ یہی وہ میکسی اور رومال ہے جو جلباب اور خمار کے نام سے جانا جاتا ہے جو پرانے وقتوں میں جسم کو ڈھانپنے کے کام آیا۔
پولیس، نرسنگ اور کچھ اور محکموں کا یونی فارم پینٹ اور گھٹنوں سے اوپر تک قمیض اور سر پر رومال پر مشتمل ہوتا ہے۔ شادی بیاہ میں مغربی طرز کی سفید میکسی پہنی جاتی ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے بنگلہ دیشی عورت ساڑھی پہنتی ہے۔ شلوار قمیض اور دوپٹہ پنجابی لباس کے طور پہ مانا جاتا ہے۔ بلوچی اور پختون عورتیں گھیر دار فراک پہنتی ہیں۔ ایرانی عورت پینٹ شرٹ/ پینٹ کوٹ کے ساتھ سر ڈھانپنے کے لیے رومال استعمال کرتی ہے۔ انڈونیشین ملائشین عورت سکرٹ شرٹ استعمال کرتی ہے۔ مصری اور سوڈانی عورتیں پینٹ شرٹ، میکسی اور سکرٹ شرٹ استعمال کرتی ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مختلف معاشرتوں نے کپڑے سے جسم کو ڈھانپنے کے مختلف انداز وضع کیے ہیں۔ دوپٹے اور چنی کا تعلق مذہب سے نہیں معاشرت سے ہے۔
چھاتی جیسے نارمل عضو کو شہوت سے جوڑنے کا کارنامہ نہ جانے کس نے کب انجام دیا مگر نتیجہ تو یہی نکلا کہ عورت کے لیے زندگی مزید تنگ ہو گئی اور چھاتی راندہ درگاہ بن گئی۔
چھاتی کے متعلق جنسی اشاروں کنایوں اور حرکات نے دنیا بھر میں اور کچھ نہیں تو ریپ کلچر کو فروغ ضرور دیا ہے۔ چھاتی ایک نشان یا اشارہ بن جاتی ہے کہ لڑکی بلوغت کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔
چھاتی کو جتنا چاہیں، چنی سے ڈھک لیا جائے مگر گھاگ شکاری کی نظر وہاں تک پہنچ کر رہتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات چنی ایک نشان بن جاتی کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
” میں بہت چھوٹی تھی شاید پانچویں کلاس میں جب میری چھاتی بڑھنا شروع ہوئی۔ سکول کے بچوں نے میرا جینا حرام کر دیا۔ کبھی کبھی تو ٹیچرز بھی عجیب طرح گھورتے، میرا جی چاہتا کہ میں چھاتی کاٹ کر پھینک دوں۔ کبھی سوچتی کہ کاش میرے جسم سے چھاتی جھڑ جائے۔ رو رو کر خدا سے دعا کرتی کہ مجھے یہ نہیں چاہیے۔ سکول جانے سے پہلے تنگ خوب بنیان یونی فارم کے نیچے پہنتی تاکہ چھاتی کا نشان نظر نہ آئے“
اس بچی کی کہانی بہت سی بچیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ دور کیوں جائیے، ہمیں لگتا ہے کہ شاید ہم نے بھی ایسا ہی محسوس کیا تھا۔ ایک گھن کا سا احساس کہ کیا ایسا انوکھا ہو گیا ہمارے جسم کے ساتھ، کہ ہر کسی کی نظر چھید کرتی نظر آتی ہے۔ چھاتی ہے بھئی، ہر عورت کی ہوتی ہے، کیا خود عورت نے بنائی یا خدا نے بنائی۔ تخلیق کار نے ایک بندھن جوڑا، ماں اور بچے کے تعلق کی ایک کڑی۔
بچیوں کی چھاتی کا ابھار دیکھ کر شہوت انگیز رویوں میں افریقی مرد بھی کسی سے کم نہیں۔ بچی یا تو ریپ کا شکار بنے گی، ریپ نہ ہو تو چھاتی دیکھ کر باپ اندازہ لگا لیتا ہے کہ لڑکی کی شادی کی جا سکتی ہے۔ نو دس برس کی بچیوں کو ریپ ہونے یا کم عمری کی شادی سے کیسے بچایا جائے؟ ایسا کیا کیا جائے کہ کوئی بچی کی بلوغت کے آثار دیکھ نہ سکے؟ شکاری سے اپنی چڑیا کو کیسے بچایا جائے؟
افریقہ کی مائیں ہر وقت ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتی تھیں۔ آخر کار طریقہ تو ڈھونڈھ نکالا مگر کچھ ایسا جو بچیوں کو بچپن میں ہی توڑ پھوڑ دے۔ مگر شاید ریپ ہونے سے بہتر۔ نہ ریپ ہو گا، نہ حمل کا ڈر، ایڈز سے بھی بچنا اسی صورت میں ممکن کہ کوئی بھانپ نہ سکے کہ بچی بڑی ہو رہی ہے۔ تعلیم بھی جاری رہے گی اور باپ کم عمری میں شادی کرنے کا بھی نہیں سوچے گا۔
ان تمام خطروں سے نبٹنے کا ایک ہی حل نکلا، چھاتی کو چھاتی بننے نہ دو، سلیٹ کی طرح ہموار کر دو۔
چھاتی کو پچکا کر ابھرنے نہ دینے کا یہ عمل گھر کی بڑی بوڑھیاں انجام دیتی ہیں۔
آٹھ نو برس کی بچی گھر کے آنگن میں بے فکری سے کھیل رہی ہے۔ برامدے میں بیٹھی دادی کی نظر اس کے ننھے سے جسم پہ جمی ہے جہاں آثار بتاتے ہیں کہ چھاتی جسم کی سلیٹ پر اپنا نام لکھ رہی ہے۔ اپنے بچپن میں ریپ ہوئی دادی اور ماں اس نام کو مٹانا چاہتی ہیں تاکہ بچی کی معصومیت سے کھیلنے والے اسے پڑھ نہ سکیں۔
بچی کو گھر کی اندھیری کوٹھڑی میں لے جایا جاتا ہے۔ بچی حیران نظروں سے ماں کی طرف دیکھتی ہے جو خاموشی سے اس کی قمیض اتار رہی ہے۔ بچی کو زمین پر لٹانے کے بعد اس کے دونوں طرف کچھ عورتیں بیٹھ جاتی ہیں جو ننھے سے جسم کو مضبوطی سے پکڑ لیتی ہیں۔ امی، امی، بچی پکارتی ہے۔ ماں کی آنکھ کا آنسو بچی کو دیکھ کر لرزتا ہے۔
دو عورتیں ایک بڑے برتن میں کچھ لے کر آئی ہیں۔ کیا ہے یہ، شاید سوپ ہے، لیکن کیسے پیؤں گی میں لیٹے لیٹے۔ امی مجھے بٹھا دیں۔
ہاتھ پہ دستانے پہنے ایک عورت دیگچے میں ہاتھ ڈالتی ہے۔ بھاپ اڑاتی ہوئی ایک شے برآمد ہوتی ہے۔
آہ آہ، نہیں، نہیں، بس کرو، میں مر رہی ہوں۔ چیخیں، کراہیں، درد، بے ہوشی۔ امی امی میں اب کوئی شرارت نہیں کروں گی، وعدہ، پکا وعدہ، گھر سے باہر کھیلنے بھی نہیں جاؤں گی۔
ننھی بچی کی چھاتی پہ دو انتہائی گرم پتھر رکھ کر دبایا جا رہا ہے۔ بچی ہوش اور بیہوشی کی سرحد پہ چکرا رہی ہے۔ سب عورتیں خاموش ہیں۔ وہ کہنا چاہتی ہیں مگر کیا کہیں؟ کہ یہ تکلیف اس ظلم سے کم ہے جو جھاڑیوں کی اوٹ میں اسے گھیر کر کیا جائے گا جس کے نتیجے میں وہ یا تو مر جائے گی یا ایڈز کا شکار ہو کر جیتے جی مر جائے گی۔ وہ عمر رسیدہ عورتیں بچی کے جسم سے ہر وہ نشان مٹانا چاہتی ہیں جو کسی بھی مرد کو اس کی طرف متوجہ کرے۔
گرم پتھروں کے ذریعے چھاتی کو جلا کر، چھاتی کی چربی پگھلا کر، اور گرم پتے چھاتی پر باندھ کر ہی دنیا سے چھپا جا سکتا ہے۔ گرم ہتھوڑی یا لکڑی کی بنی ڈوئی سے ضربیں لگانا بھی اس عمل میں شامل ہے۔ وقفے وقفے سے کئی ماہ تک چھاتی کو اسی طرح پیٹا جائے گا جب تک چھاتی کی نمو رک کر ہموار سلیٹ نہ بن جائے۔
اس عمل سے گزرنے والی بچیوں کی چھاتیوں پہ پڑے نشان انہیں عمر بھر وہ اذیت یاد دلاتے رہتے ہیں جو گھر کی اندھیری کوٹھڑی میں ان پہ گزری۔ وہ جنسی تشدد یا کم عمری کی شادی سے تو بچ جاتی ہیں مگر چھاتی کی استری نامی یہ عمل انہیں بچپن میں ہی سکھا دیتا ہے کہ زندگی ان کے لیے کس قدر مشکل ہو گی۔
مستقبل میں بہت سی لڑکیاں چھاتی کے کینسر کا شکار بنیں گی اور کئی ایک اس کوٹھڑی میں ہونے والی تکلیف کو بھلانے میں ناکامی پر ڈپریشن میں مبتلا ہوں گی۔
افریقی مائیں یہ ماننے پہ تیار نہیں کہ مغربی ممالک میں رہنے سے بچیاں محفوظ رہیں گی سو انگلستان میں رہنے والی افریقی بچیوں کی چھاتی اسی طرح ختم کی جاتی ہے۔ انگلستان میں اسے چائلڈ ایبیوز مانا گیا ہے اور اس کے خلاف بہت سی این جی او کام کر رہی ہیں۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ چھاتی دیکھ کر ریپ کرنے والے کیا ان لوگوں سے مختلف ہیں جو چھاتی کے ابھار اور چھاتی کے کلیوج کو جنسی تلذذ کا نشان سمجھتے ہیں؟
کوئی تبصرے نہیں