*پسرورکی سیاست میں متوقع جنرل الیکشن کیلئے جوڑ توڑ اور مقامی سیاسی قائدین کی دھڑے بندی سیاسی پارٹیوں کےورکرز اور شہریوں کیلئے کڑا امتحان...
*پسرورکی سیاست میں متوقع جنرل الیکشن کیلئے جوڑ توڑ اور مقامی سیاسی قائدین کی دھڑے بندی سیاسی پارٹیوں کےورکرز اور شہریوں کیلئے کڑا امتحان*
قارئین شہریوں کے مسائل حل کرنے میں جہاں پر اداروں کی زمہ داری ہوتی ہے ویسے ہی ان مسائل سے نبٹنے کیلئے سیاسی پارٹیوں کابھی اہم رول ہوتا ہے جیسےاپوزیشن کا کام ان مسائل کی نشاندھی کرناہوتاہے ویسے ہی صحافت کا رول بھی ان مسائل کیلئے اہم ہے جس کیلئے پسرور میں بدقسمتی سے اپوزیشن اورمنتخب نمائندگان سمیت انتہائی افسوس کے ساتھ کہونگا کہ ہماری پسرور کی صحافت بھی بالکل ناکام ہوچکی ہے کوئی دھڑوں میں تقسیم ہونے کے ساتھ اپنے من پسند لوگوں کی خبریں لگانے میں مصروف ہے بلکہ یہاں تک ہوچکا ہے کہ صرف کسی ایک سیاسی پارٹی کی بجائے شخصیت پرستی کوترجیح دی جاتی ہے جو پسرور کے باسیوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے جو فیلڈ میں چند صحافی ہیں جنکاشمار ورکنگ جرنلسٹ میں ہوتا ہے انکوبھی عورتوں کی طرح سینئیر جرنلسٹ کی جانب سے گاہے بگاہے طعنہ مارے جاتے ہیں اور انکاسوشل میڈیا میں ایک پروپیگنڈہ کے تحت مزاق اڑایا جاتاہے انہی ورکنگ جرنلسٹ نے ہمیشہ چھوٹے سے چھوٹےمسائل کی نشاندھی کو بھی اپنافرض سجھ کرعوام اور اعلی ایوانوں تک پہنچایا انکومیں سلام پیش کرتاہوں قارئین اس پر مکمل تفصیل کے ساتھ اگلے کالم میں آپ کے گوش گزار کرنے کی کوشش کرونگا کہ کس نے پسرور کی ترقی میں کیارول اداکیا اور کہاں کہاں سے مفادات حاصل کئیے آج ایک طرف ملک بھرمیں سیاسی استحکام کی لہر ہے وہی پرپسرورمیں سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی ایک دوسرے سے ناخوش ہیں۔بات کریں مسلم لیگ ن کی تو اس وقت مسلم لیگ ن میں واضع طور پر دھڑے بندی ہوچکی ہے جس کی جھلک چند دن سے کچھ زیادہ ہی نظر آرہی ہے مقامی قائدین دو گروپوں میں تقسیم ہونے کے باعث ایک دوسرے کے گروپ میں اپنی ہی پارٹی کے ورکرز کوترجیح دینے سے صاف صاف گرہیز کررہے ہیں جس کاایک ثبوت یہ ہے کہ ایک محفل میں معروف مذہبی رہنما پسرورکی اہم شخصیت رانامحمدشفیق خان پسروری نے دونوں طرف کے قائدین کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کامشورہ بھی دیا اور کہا کہ آئیندہ کی نشست میں میں امید کرتاہوں کہ جودوری ایم این اے اور ایم پی ایز کے درمیان پیدا ہوچکی ہے وہ فاصلے ختم کرکے ایک میز پر بیٹھیں گے یہ کب ہوگا ۔ہوگابھی یانہیں یہ تو وقت بتائیگا لیکن ایک بات ضرور ہے کہ مقامی قیادت کو انکے مشیران کی جانب سے غلط پروپیگنڈہ کے تحت اس نہج تک پہنچا دیا گیا ہے کہ شائد آنے والے جنرل الیکشن میں یہ ایک دوسرے کے مدمقابل الیکشن لڑتے نظر آئیں انہی مشیروں کے باعث میں بہت سے ایسے ووٹرز کوجانتاہوں جو مسلم لیگ ن سے وابستگی کے باوجود ووٹ ناں دینے کی کھلم کھلابات کررہے ہیں جس کا خمیازہ پارٹی کو الیکشن میں ہارکی صورت میں مل سکتا ہے دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف جو اس وقت بلاشبہ ایک بڑی پارٹی بن کر سامنے آچکی ہے جس کیلئے سیاست کامیدان 2018کی نسبت آسان نظر آرہا تھا لیکن جب سے صوبائی حکومت میں پی ٹی آئی کی حمائیت سے ق لیگ کے وزیراعلی منتخب ہوئے ہیں تب سے کچھ ہلچل مچی ہوئی ہے کچھ حلقے ق لیگ کے سابق تحصیل ناظم چودہری مقصودسلہریا کی حمائیت میں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے مہم چلارہے ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے سابق ٹکٹ ہولڈر چودہری غلام عباس بھی اعلی سطع پر متحرک نظر آرہے ہیں پی ٹی آئی کی قیادت ٹکٹ کس کودیگی یہ تو وقت آنے پر فیصلہ ہوگا لیکن بلاشبہ پسرورمیں این اے کے حلقہ میں چودہری غلام عباس کی 2018کے بعد کی جو سرگرمیاں ہیں انکودیکھاجائے تو وہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہیں جو انکے لئیے متوقع جنرل الیکشن میں فائدہ دے سکتی ہیں البتہ ایک گونج جوپی ٹی آئی ورکرمیں بھی سنائی دے رہی ہے کہ وہ صرف چند لوگوں کے حصار میں قید ہیں اور دیرینہ ورکرکونظر انداز کررہے ہیں اسکے لئیے چودہری غلام عباس کو فوری نظر ثانی کرنی ہوگی اور ان ورکرکوساتھ بیٹھاناہوگا رہی بات چودہری مقصود سلہریا کی تو اگر پارٹی انکوٹکٹ دیتی ہے تو جتنی محنت چودہری غلام عباس نے اس حلقہ میں کی ہوئی ہے یا کررہے ہیں وہ کبھی اسکوضائع نہیں کریں گے وہ الیکشن میں حصہ ضرور لیں گے اگر چہ چودہری مقصودسلہریا اور چودہری غلام عباس مل بیٹھ کر جنرل الیکشن کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیتے ہیں تو مسلم لیگ ن کے لئے انتہائی مشکلات پیدا ہونگی اور پسرورکی سیاست پر تجزیہ کرنے والے دوست تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر چہ ان دونوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجاتی ہے تو سوفیصد کامیابی کا سہرا ان کے سر ہوگا دوسری صورت میں علیدہ علیدہ الیکشن لڑنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنے ہاتھوں سے مسلم لیگ ن کوسیٹ جتوائی جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ جو چودہری غلام عباس کے ساتھ نہیں جانا چاہتے وہ چودہری مقصود کے ساتھ مل کر فایدہ دے سکتے ہیں جسکا فایدہ بحرحال دونوں کوہوگا دوسری طرف پھر مسلم لیگ ن کی بات کریں تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کسی نئے امیدوار کی گنجائش ہے جس طرح کا مقابلہ دوہزار اٹھارہ کو جنرل الیکشن میں دیکھنے کو ملا اس سے کئی گنا بہتر حالات اس وقت پی ٹی آئی کے ہوچکے ہیں جوکسی بھی وقت اقتدار کا پانسہ پلٹنے کیلئے کافی ہیں
کوئی تبصرے نہیں